الٓمّٓۚ ﴿۱﴾
خدائے علیم وحکیم کا اِرشاد ہے کہ
ذٰلِكَ الۡڪِتٰبُ لَا رَيۡبَ ۛۚ ۖ
فِيۡهِ ۛۚ هُدًى لِّلۡمُتَّقِيۡنَۙ ﴿۲﴾
تم جس ہدایت کی آرزو رکھتے ہو (1
:5) وہ ہمارے اِس ضابطہ قوانین کے اَندر محفوظ ہے ( 15 : 9 )جس میں نہ بے یقینی
اور تذبذب ہے ‘ اورنہ کوئی نفسیاتی اُلجھن۔
یہ ضابطہ‘ قوانین ‘ سفر زندگی میں‘ اُن لوگوں کو
اِنسانیت کی منزلِ مقصود کی طرف لے جانے والی راہ بتاتا ہے جو غلط راستوں کے خطرات
سے بچنا چاہیں۔
الَّذِيۡنَ يُؤۡمِنُوۡنَ
بِالۡغَيۡبِ وَ يُقِيۡمُوۡنَ الصَّلٰوةَ وَمِمَّا رَزَقۡنٰهُمۡ يُنۡفِقُوۡنَۙ ﴿۳﴾
یہ وہ لوگ ہیں جو اُن حقیقتوں پر یقین
رکھتے ہیں جو نگاہوں سے اوجھل ہیں‘ اور صحیح رَوِش کے اُن نتائج پر بھروسہ رکھتے ہیں
جو اگر چہ اِبتداءاُن کی نظروں سے پوشیدہ ہوتے ہیں لیکن جن کا آخر الامر سامنے
آجانایقینی ہوتا ہے۔
اِس مقصد کے لئے یہ لوگ اُن نظام کو قائم کرتے ہیں
جس میں تمام اَفراد قوانین خداوندی کا اِتباع کرتے جائیں۔ اور جو سامان نشوونما
اُنہیں دیا جاتا ہے ‘ اُس میں سے‘ اپنی ضروریات کے بقدر لے کر (2 :219) باقی نوع
انسان کی پروَرش کے لئے کھلا رکھتے ہیں۔
وَالَّذِيۡنَ
يُؤۡمِنُوۡنَ بِمَآ اُنۡزِلَ اِلَيۡكَ وَمَآ اُنۡزِلَ مِنۡ قَبۡلِكَۚ
وَبِالۡاٰخِرَةِ هُمۡ يُوۡقِنُوۡنَؕ ﴿۴﴾
یہ وہ لوگ ہیں جو اُن تمام
صداقتوں پر ایمان رکھتے ہیں جو (اے رسول!) تجھ پر بذریعہ وحی نازل کی گئی ہیں ‘ا و
ر جو تجھ سے پہلے پیغمبروں کو اُن کے لئے اپنے اپنے وقت میں دی گئی تھیں لیکن ( اور اب صرف قرآن کریم کے اندر محفوظ ہیں)....
اِن صداقتوں پر ایمان رکھنے کے معنی یہ ہیں کہ وہ صحیح تاریخی شہادتوں سے اِس نتیجہ
پر پہنچ جائیں کہ اِس پروگرام پر اِس سے پہلے بھی کئی بار عمل ہو چکا ہے اور اِس
سے ہر بار وہی نتائج پیدا ہوئے ہیں جن کا اب وَعدہ کیا جاتا ہے‘ اس لئے اب بھی وہی
نتائج مرتب ہوں گے.... وہ اِس طرح اِس حقیقت پر یقین رکھتے ہیں کہ اِس ضابطہ
خداوندی پر عمل کرنے سے ایک نئی زندگی کی نمود ہوجاتی ہے اور یوں حال کی جدوجہد سے
اِنسان کا مستقبل روشن ہوجاتا ہے.... وہ مستقبل جس کا سلسلہ اِسی دنیا تک محدود نہیں
بلکہ وہ مرنے کے بعد بھی آگے چلتا ہے۔
اُولٰٓٮِٕكَ عَلٰى هُدًى مِّنۡ رَّبِّهِمۡ
وَاُولٰٓٮِٕكَ هُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ ﴿۵﴾
یہ وہ سعادت مند لوگ ہیں جو اپنے
نشوونما دینے والے کے قانون ربوبیت کی راہ نمائی میں سفر زندگی طے کئے جاتے ہیں‘
اور یہی وہ لوگ ہیں جن کی کھیتیاں آخر الامر پروان چڑھتی ہیں۔
(31 :2 - 5 ) .( 23 :1-11)
Post A Comment:
0 comments so far,add yours