July 2019
الٓمّٓۚ ﴿۱﴾
خدائے علیم وحکیم کا اِرشاد ہے کہ
ذٰلِكَ الۡڪِتٰبُ لَا رَيۡبَ ۛۚ ۖ
فِيۡهِ ۛۚ هُدًى لِّلۡمُتَّقِيۡنَۙ ﴿۲﴾
تم جس ہدایت کی آرزو رکھتے ہو (1
:5) وہ ہمارے اِس ضابطہ قوانین کے اَندر محفوظ ہے ( 15 : 9 )جس میں نہ بے یقینی
اور تذبذب ہے ‘ اورنہ کوئی نفسیاتی اُلجھن۔
یہ ضابطہ‘ قوانین ‘ سفر زندگی میں‘ اُن لوگوں کو
اِنسانیت کی منزلِ مقصود کی طرف لے جانے والی راہ بتاتا ہے جو غلط راستوں کے خطرات
سے بچنا چاہیں۔
الَّذِيۡنَ يُؤۡمِنُوۡنَ
بِالۡغَيۡبِ وَ يُقِيۡمُوۡنَ الصَّلٰوةَ وَمِمَّا رَزَقۡنٰهُمۡ يُنۡفِقُوۡنَۙ ﴿۳﴾
یہ وہ لوگ ہیں جو اُن حقیقتوں پر یقین
رکھتے ہیں جو نگاہوں سے اوجھل ہیں‘ اور صحیح رَوِش کے اُن نتائج پر بھروسہ رکھتے ہیں
جو اگر چہ اِبتداءاُن کی نظروں سے پوشیدہ ہوتے ہیں لیکن جن کا آخر الامر سامنے
آجانایقینی ہوتا ہے۔
اِس مقصد کے لئے یہ لوگ اُن نظام کو قائم کرتے ہیں
جس میں تمام اَفراد قوانین خداوندی کا اِتباع کرتے جائیں۔ اور جو سامان نشوونما
اُنہیں دیا جاتا ہے ‘ اُس میں سے‘ اپنی ضروریات کے بقدر لے کر (2 :219) باقی نوع
انسان کی پروَرش کے لئے کھلا رکھتے ہیں۔
وَالَّذِيۡنَ
يُؤۡمِنُوۡنَ بِمَآ اُنۡزِلَ اِلَيۡكَ وَمَآ اُنۡزِلَ مِنۡ قَبۡلِكَۚ
وَبِالۡاٰخِرَةِ هُمۡ يُوۡقِنُوۡنَؕ ﴿۴﴾
یہ وہ لوگ ہیں جو اُن تمام
صداقتوں پر ایمان رکھتے ہیں جو (اے رسول!) تجھ پر بذریعہ وحی نازل کی گئی ہیں ‘ا و
ر جو تجھ سے پہلے پیغمبروں کو اُن کے لئے اپنے اپنے وقت میں دی گئی تھیں لیکن ( اور اب صرف قرآن کریم کے اندر محفوظ ہیں)....
اِن صداقتوں پر ایمان رکھنے کے معنی یہ ہیں کہ وہ صحیح تاریخی شہادتوں سے اِس نتیجہ
پر پہنچ جائیں کہ اِس پروگرام پر اِس سے پہلے بھی کئی بار عمل ہو چکا ہے اور اِس
سے ہر بار وہی نتائج پیدا ہوئے ہیں جن کا اب وَعدہ کیا جاتا ہے‘ اس لئے اب بھی وہی
نتائج مرتب ہوں گے.... وہ اِس طرح اِس حقیقت پر یقین رکھتے ہیں کہ اِس ضابطہ
خداوندی پر عمل کرنے سے ایک نئی زندگی کی نمود ہوجاتی ہے اور یوں حال کی جدوجہد سے
اِنسان کا مستقبل روشن ہوجاتا ہے.... وہ مستقبل جس کا سلسلہ اِسی دنیا تک محدود نہیں
بلکہ وہ مرنے کے بعد بھی آگے چلتا ہے۔
اُولٰٓٮِٕكَ عَلٰى هُدًى مِّنۡ رَّبِّهِمۡ
وَاُولٰٓٮِٕكَ هُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ ﴿۵﴾
یہ وہ سعادت مند لوگ ہیں جو اپنے
نشوونما دینے والے کے قانون ربوبیت کی راہ نمائی میں سفر زندگی طے کئے جاتے ہیں‘
اور یہی وہ لوگ ہیں جن کی کھیتیاں آخر الامر پروان چڑھتی ہیں۔
(31 :2 - 5 ) .( 23 :1-11)
بِسۡمِ ٱللهِ ٱلرَّحۡمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ
خدائے رحمٰن ورحیم نے اس کتاب ِ
عظیم کو اس لئے نازل کیا ہے کہ اُس نے اشیائے کائنات اور نوعِ انسان کی نشونما کی
جو ذمہ داری لے رکھی ہے، وہ پوری ہو جائے۔ ( 6 : 12 ) ، ( 6 : 54 ) ۔ یہ نشوونما،
وحی کی راہنمائی کے بغیر ممکن نہیں۔ ( 10 : 57 – 58 ) ، ( 17 : 82 ) چونکہ انسانی
دنیا میں خدا کی ذمہ داریاں انسانوں کے ہاتھوں پوری ہوتی ہیں، اس لئے خدا کے بندوں
کے لئے ضروری ہے کہ وہ جس کام کا بھی ارادہ کریں اُس سے مقصد خدا کے اِس پروگرام کی
تکمیل ہو۔ ( 6 : 163)۔
اَلۡحَمۡدُ لِلّٰهِ رَبِّ الۡعٰلَمِيۡنَۙ
﴿۱﴾
الرَّحۡمٰنِ الرَّحِيۡمِۙ
﴿۲﴾
جب اِنسان کارگہ کائنات کے نظم
ونسق پر غور کرتا ہے تو اس کے سامنے یہ حقیقت بے نقاب ہو کر آجاتی ہے کہ اس میں ‘
ہر شے کو وہ سامانِ نشوونما کس طرح بلامزدومعاوضہ ملتا چلا جاتا ہے جس سے وہ‘ اپنے
نقطہ آغازسے عام حالات میں تدریجاًاور عندالضرورت فجائی عمل ارتقاء کی رُو سے مقام
تکمیل تک پہنچ جاتی ہے۔ اس حیرت انگیز نظامِ ربوبیت کو دیکھ کر ‘ ہر صاحب بصیرت کی
زبان پر بے اختیار کلمات تحسین وآفرین آجاتے ہیں‘ اور وہ بلا ساختہ پکار اٹھتا ہے
کہ ”اے ہمارے نشوونما دینے والے! تو نے اس کائنات کی کسی شے کو نہ بیکار پیدا کیا
ہے اور نہ ہی تخریبی نتائج کے لئے(3 : 189 -190)ہی وہ ارباب علم وایقان ہیں جو صحیح
معنوں میں خدا کی حمد کرنے والے ہیں ( 9 :12) ، (35 :27 - 28) خدا کے اس پروگرام کی
تکمیل کے لئے ضروری ہے کہ جو مستبد قوتیں دوسروں کی نشوونما کی راہ میں حائل ہوں ‘
انہیں راستے سے ہٹا دیا جائے۔ یہ حمدیت کا قدم اوّل ہے (6 :45) ۔
مٰلِكِ يَوۡمِ الدِّيۡنِؕ ﴿۳﴾
ان مستبد قوتوں کو راستے سے
ہٹانے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ایک ایسا نظام قائم ہوجائے گا جس میں نہ کوئی انسان ‘
دوسرے انسان کا محتاج ہو گا نہ محکوم۔ اس میں تمام امور کے فیصلے خدا کے قوانین کے
مطابق ہوں گے(82 : 18 - 19)، (17 : 111 ) ، ( 43 : 84 )یہی وہ نظام ہے جسے‘ آخر
الامر‘ انسانوں کے تمام خود ساختہ نظامہائے حیات پر غالب آکر رہنا ہے (9 :33) ۔
اِيَّاكَ نَعۡبُدُ وَاِيَّاكَ
نَسۡتَعِيۡنُؕ ﴿۴﴾
یہ نظام ان افراد کے ہاتھوں
متشکل ہو گا جو اس حقیقت ِکبریٰ کا اعلان ‘ اور عملاً اس اعلان کی تصدیق کریں گے
کہ ہم خدا کے سوا کسی کی اطاعت اور محکومیت اختیار نہیں کرتے اور نہ ہی کسی غیر
خدائی نظام سے خواستکارِ معاونت ہوتے ہیں (12 :40) ; (3 :78)۔اس کا عملی طریق اُس
کی کتاب عظیم (قرآن مجید ) کے احکام واصول کی اطاعت ہے(5 :44-45) ۔
اِهۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِيۡمَۙ
﴿۵﴾
یہ اافراد(جماعت ِمومنین) جب
سفر حیات کے لئے قدم اُٹھاتے ہیں تو ‘ یہ حسین تمنائیں اور مقدس آرزوئیں ‘ دعابن
کر ان کے لبوں تک آجاتی ہیں کہ بارِ الٰہا! زندگی کا وہ سیدھا اور ہموار راستہ
ابھر اور نکھر کر ہمارے سامنے آجائے جو ہمیں‘ بلا خوف وخطر‘ ہماری منزلِ مقصود تک
لے جائے۔
صِرَاطَ الَّذِيۡنَ اَنۡعَمۡتَ
عَلَيۡهِمۡ
یعنی وہ راستہ جس پر چل کر‘
سعادت مند امم سابقہ ‘ زندگی کی خوشگواریوں اور سرفرازیوں سے بہرہ یاب ہوئیں۔ اس
سے انہوں نے ‘ کائنات کی قوتوں کو مسخر کرکے‘ اپنی ہم عصر اقوام میں امتیازی حیثیت
حاصل کر لی (31 : 20)، ( 2 : 47 )
غَيۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَيۡهِمۡ وَلَا
الضَّآلِّيۡنَ ﴿۶﴾
جب تک یہ قومیں‘ تیرے متعین
کردہ راستے پر چلتی ہیں‘ زندگی کی شادابیوں سے بہرہ یاب رہیں۔ جب ان کے نظریہ حیات
میں تبدیلی آگئی تو یہ نعمتیں ان سے چھن گئیں (8 :53) اور وہ دنیا میں ذلیل وخوار
ہو گئیں (7 :152; 2 :61) ۔ان کی سعی وعمل کی کھیتیاں جھلس کر راکھ کا ڈھیر بن گئیں۔ا
ور چونکہ صحیح راستہ ان کی نگاہوں سے اوجھل ہو چکا تھا اس لئے ان کا کاروانِ حیات
اپنی قیاس آرائیوں کے پیچ وخم میں کھو کر رہ گیا۔ وہ کبھی‘ آنکھیں بند کر کے‘ اپنے
آباواجداد کی فرسودہ راہوں پر چلتے رہے ( 37 : 69 - 71 ) اور کبھی انہوں نے خود
اپنے جذبات ہی کو اپنا راہ نما بنا لیا (45 :23) ۔ جب اس سفر بے منزل کی بھول بھلیٍوں
میں کھو کر مایوس ہو گئے تو یہ کہہ کر اپنے آپ کوفریب دے لیا کہ خدا کو منظور ہی نہ
تھا کہ ہمیں سیدھا راستہ دکھاتا(6 :149)۔ بار ِ الٰہا! ہم تجھ سے ‘ تیرے بتائے
ہوئے راستہ پر چلنے کی توفیق طلب کرتے ہیں تاکہ ہمارا حشر بھی ان سوختہ سامانوں کا
سانہ ہو جائے‘ کہ ہم جانتے ہیں کہ جو قوم تیری راہ نمائی سے منہ موڑلے‘ اسے کوئی
صحیح راستہ نہیں دکھا سکتا ( 61 : 5 ) اس کے ساتھ ہی ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ
راستہ انہی کے سامنے آسکتا ہے جو اس کی تلاش کے لئے جدوجہد کریں(29 :69)۔ ہم تجھ
سے اس جدوجہد کی بھی توفیق طلب کرتے ہیں۔
Subscribe to:
Posts (Atom)